تحریر: ایچ ایم کالامی (کالام سوات)۔
موبائل کی گھنٹی نے چونکا دیا، سکرین پر دیکھا تو ہائیر سیکنڈری سکول کالام کے ایک طالب علم نے ہوا کے دوش پر پیغام بھیجا تھا۔ یہ ایک پبلک سروس مسیج تھا، جس میں انہوں نے طلباء سمیت تما اہل کالام کو مطلع کیا تھا کہ ہائیر سیکنڈری سکول کے طلباء اپنے حقوق کے حصول کے لئے کل ایک احتجاجی مظاہرہ کرنے جا رہے ہیں۔جس میں آپ کی شرکت ہمارے لئے باعث تسلی ہوگی۔
ہمیں کیا کسی کو تسلی دینے کی ؟ کوئی احتجاجی مظاہرہ کرے ، کوئی خٹک، چترالی، ، پنجابی پشتو وغیرہ ڈانس کا مظاہرہ کرے ، ہمیں تو بس صرف اور صرف گرما گرم و چٹ پٹی خبروں کی فکر لگی رہتی ہے۔لیکن سچ پوچھئیں تو اس اطلاع سے ہمیں دوہری خوشی ملی تھی، ایک طرف اخبار کی پیٹ بھرنے کی اور دوسری طرف وادی کالام کے اہم مسلے کو ایوان اقتدار تک پہنچانے کا موقع ہاتھ لگنے کی خوشی۔
اگلی صبح ناشتے کے بعد ہاتھ میں نوٹ پیڈ ، قلم اور ایک عددڈیجیٹل کیمرہ تھامے ہائیر سیکنڈری سکول کا رخ کیا۔ سکول کے مین گیٹ کو پہنچتے ہی دیکھا کہ طلباء اور عوام کا ایک ہجوم ہاتھ میں پلے کارڈ اٹھائے’’ انصاف والی‘‘ سرکار سے’’ تعلیم کے انصاف‘‘ کی بھیک مانگ رہے تھے۔
ہم نے کیمرے کی آنکھ سے اس منظر کو محفوظ کرلیا اور طلباء کے مسائل و مطالبات قلمبند کرنے لگے۔ یقین مانئیں ان طلباء کی درد بھری داستان کاغذ پر اتارتے ہوئے قلم بھی جھرجھری سی محسوس کرنے لگا ، ذہن پر عجیب کیفیت طاری تھی، دماغ کے ایک کونے میں تبدیلی اور انصاف والی سرکار کے الیکشن سے پہلے کے بلند بانگ نعرے گونج رہے تھے ،تو دوسرے کونے میں طلباء کی تعلیم کے انصاف کا خون ہوتا ہوا منظر اور ان کی چیخ و پکار۔
ان طلباء کی تعلیم کی نا انصافی کی دکھ بھری داستان کچھ اس طرح قلم زد ہوچکی تھی۔
*ہمارے وسیع و عریض ہائر سیکنڈری سکول کے لئے سرکار کی طرف سے کل سولہ آسامیاں مختص ہیں ، جس میں سے چار کے علاوہ پرنسپل اور وائس پرنسپل سمیت تمام کے تمام اسامیاں خالی پڑی ہے۔
*جن چار اسامیوں پر بھرتیاں ہوئی ہے وہ بھی صرف سرکار کے ریکارڈ بک تک محدود ہیں۔
*لیبارٹری روم کے آلات زنگ پکڑچکے ہیں۔
*چار دیواری کے اندر مویشیوں اور کتوں کا راج ہے۔سکول کے اطراف میں پڑی غلاظت سے پورے محلے میں تعفن پھیل چکا ہے۔
*سکول میں پینے کا پانی اور لیٹرین موجود نہیں۔اب آپ ہی بتائیں کیا یہ ہمارے ساتھ سراسر ظلم اور نا انصافی نہیں ہے؟
اس سوال کا جواب تو ہمارے ارباب اقتدار ہی بہتر جانتے ہوں گے، البتہ طلباء کے مسائل کو ارباب اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کے لئے اخبار کا کچھ حصہ سیاح کردیا ۔ اس خام خیالی میں مبتلا رہا کہ محکمہ تعلیم کے آفسران یا ہمارے حکمرانوں میں سے کوئی تو ہوگا جو ان طلباء کے مسائل کو سنجیدگی سے لے گااور ان کے حل کے لئے کوئی نہ کوئی سبیل ضرور نکالے گا ، مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی،
چند دن گرز گئے تھے کہ’’ ایک اور گل کھلا‘ فون کال آیا کہ گرلز پرائمری سکول کی طالبات بھی استانیوں کے تبادلے خلاف سراپا احتجاج ہے، لہذا ان کی آواز ارباب اقتدار تک پہنچانے کی خاطر گرلز پرائمری سکول پہنچ گئے، دیکھا کہ ننھی منھی بچیاں احتجاج کی آوازیں بلند کررہی ہیں، ان کے چہروں سے اپنی مستقبل سے مایوسی کے آثار صاف نظر آرہے ہیں، وہ چلا رہی تھیں کہ پانچ سو نوے طالبات کے لئے پہلے ہی سرکار نے صرف چار استانیاں نوازرکھی ہیں اور اب ان میں سے بھی تینوں کا تبادلہ دوسرے علاقوں میں کیا ہے اور سکول کو صرف بھوتوں کے رحم و کرم پر ہی چھوڑدیا ہے،اس لئے وہ’’ انصاف‘‘ والی سرکار سے’’ تعلیم کے انصاف‘‘ کی خاطر نعرہ احتجاج بلند کررہی ہیں۔
قارئین کرام! پہلے بھی کالموں میں اس الجھن کا اظہار کرچکا ہوں کہ یہ بات کسی کی بھی سمجھ بوجھ میں نہیں آرہی کہ تحریک انصاف کا انتخابی نعرہ’’ تبدیلی‘‘ اداروں کی طرز کاردگی کی ’’تبدیلی‘‘ کی اصطلاحی معنی رکھتی ہے یاصرف اداروں کے افسران و ملازمین کے’’ تبادلوں‘‘ والی لغوی معنی؟
جب بھی کپتان کے تبدیلی ٹیم سے تعلیمی مسائل پر سوال اٹھانے کی جسارت کرتے ہیں تو بڑے انہماک سے کہتے ہیں کہ ’’تعلیم کے لئے ہم نے سب سے زیادہ بجٹ رکھا ہے، اور ادھر سرکاری سکولوں کی حالت زار آپ کے سامنے ہیں ، تبدیلی والی سرکار سے ہاتھ جوڑ کر معافی چاہتے ہیں کرتے ہیں کہ ہم سے غلطی سرزد ہوئی ہمیں پرانا والا پاکستان منظور ہے،لیکن ہمارا نظام تعلیم تباہی کی اتھا گہرائیوں میں ڈوب رہا ہے اس کو بچائیں ، آپ کو کچھ پانے کے لئے کچھ کھونے کے مصداق پرانا خیبر پختونخوا بھی نہیں کھونا پڑے گا بلکہ نیا پاکستان بھی اپنے آپ بننا شروع ہوگا۔
0 comments:
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔