Click & Install Urdu Phonetic Keyboard

Pak Urdu Installer
Thursday, 10 July 2014

22:59
تحریر :مصطفی خان شاذلی

پیشے کے لحاظ اگر دیکھا جائے، تو معلمی ایک بہت ہی عظیم پیشہ ہے۔ اس حقیقت کو کوئی مانے یا سرے سے انکار کردے، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نجی تعلیمی اداروں کا مثبت کردار دراصل ان معلمین کرام ہی کی وجہ سے پروان چڑھا ہے اور اس بات کا اقرار ہر خاص و عام کرتا رہتا ہے۔ عام زندگی میں یا دیگر اداروں کا اگر تجزیہ کیا جائے، تو کچھ لوگ ایسے پائے جاتے ہیں کہ جو بغیر سختی اور نگرانی کے کام نہیں کرتے اور کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں، جو سختی اور نگرانی کی وجہ سے کام کرنے میں الجھن محسوس کرتے ہیں۔ بعض اوقات تو نوبت یہاں تک آجاتی ہے کہ وہ کام کرنے والا استعفا دے کر ادارے ہی کو خدا حافظ کہہ دیتا ہے۔ دراصل اکثر اداروں کے مالکان سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی عادت رکھتے ہیں۔ کسی بھی میدان میں کامیابی و ناکامی میں ذاتی خصلت بھی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ خواہ وہ اہل کار کی کامیابی و ناکامی ہو، یا ملک کی۔ 

کچھ اساتذہ تو صرف بے روزگاری کی وجہ سے اور کچھ اساتذہ بے روزگاری اور شوق معلمی کی وجہ ہی سے اُستاد بن جاتے ہیں۔ ان دونوں کی معلمی میں قدرے فرق ہوتا ہے۔ اس دور میں اگر دیکھا جائے، تو درجۂ چہارم کا سرکاری ملازم، نجی تعلیمی ادارے کے قابل ترین اُستاد سے عزت و احترام میں کہیں بڑھ کر ہے۔ عام طور پہ نجی اسکول کے اُستاد کو کوئی اُستاد بھی نہیں سمجھتا اور نہ اُسے ’’ماسٹر صاحب‘‘ یا ’’اُستاد صاحب’’ یا پھر ’’سر جی‘‘ ہی کہا جاتا ہے۔ گھر میں اور رشتہ داروں میں تو روزگار کے حوالے سے نجی ادارے کے اُستاد کو بے روزگار ہی کہا جاتا ہے۔ ہم سے ایک ریٹائرڈ اسکول ٹیچر نے ایک دن کہا کہ یہ اساتذہ قسم کے لوگ تو بے وقوف ہوتے ہیں، انھیں چاہیے کہ کوئی ڈھنگ کا کام شروع کردیں۔ ایک اور آفیسر نے کہا کہ جو لوگ تن آسان یا کام چور ہوتے ہیں، وہ یہ پیشہ اختیار کرتے ہیں۔ اس پیشے میں نہ تو عزت باقی رہی ہے نہ پیسہ ہے اور نہ مستقبل کا کوئی فائدہ ہی ہے۔ وہ ریٹائرڈ ماسٹر اور آفیسر صاحب یہ بھول گئے کہ کسی اُستاد سے خود انھوں نے بھی کبھی پڑھاتھا۔ 

اگر بات تن آسانی یا کام چوری کی، کی جائے، تو یہ قطعاً غلط ہے کیوں کہ جو محنت ایک نجی تعلیمی ادارے کا اُستاد کرتا ہے، شاید ہی کوئی اور کرتا ہو۔ ان دونوں افراد کامقصد یہ تھا کہ اگر گورنمنٹ اسکول کی ملازمت ہو تو ٹھیک ہے، نجی شعبوں کی ملازمت عبث ہے۔ اب اگر گورنمنٹ اسکول کی ملازمت کسی وجہ سے نہ مل پارہی ہو، تو اس میں نجی اسکول ماسٹر کا کیا قصور ہے؟ نجی اداروں کی تعمیر اور ان کا قیام اچھا ہی ہے۔ کم از کم بے روزگاری سے تو بہت سے لوگ بچے ہوئے ہیں، خواہ لوگ ایسے اساتذہ کو بے روزگارہی سمجھتے ہوں۔ 
فی زمانہ ہم نے تو یہ محسوس کرلیا ہے کہ یا تو بہت سارا پیسہ ہو اور یا بہت بڑا عہدہ، تب کہیں جاکر اس بات کا امکان پیدا ہوسکتا ہے کہ معاشرے میں لوگ تمھاری عزت کریں۔ مگر پھر سوچتے ہیں کہ وہ عزت بھی کیا عزت ہے کہ جس میں خلوص نیت، سچائی اور محبت نہ ہو۔ ظاہری خوشامدی، بے مصرف تعریف، کیا فائدہ؟ خیر بات ہورہی تھی بے چارے اُستاد کی، گورنمنٹ اسکولوں کے اُستاد صاحبان تو پھر بھی گزارہ کرلیتے ہیں۔ اُن کی تن خواہ جیسی بھی ہو، جتنی بھی ہو، کوئی انھیں بے روزگار تو نہیں سمجھتا۔ اُسے اُستاد صاحب تو سمجھا جاتا ہے، مگر یہ نجی اداروں کے لوگ کا کیا کھاتہ ہے؟ 
ایک عجیب سی بات یہ بھی ہے کہ اکثر نجی اداروں کے اساتذہ ایک دوسرے کو بھی استاد کا درجہ دینے کے حق میں نہیں ہوتے۔ کئی تو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش بھی کرتے ہیں، یہ سوچے بنا کہ ہمارا آپس میں بہت مختصر ساتھ ہوتا ہے۔ کسی کو بھی کسی وقت ادارہ چھوڑ کر چلے جانے کا پروانہ وصول ہوسکتا ہے۔ بچھڑنا تو ویسے بھی ہاتھ کی ریکھاؤں میں ازل سے لکھا ہوا ہے، تو پھر اس مختصر سے ملن اورمختصر سے ساتھ کی ملازمت میں اتنی رقابتیں آخر کیوں؟ دولت، عزت، غربت، ذلت اور معاشرتی رویوں کا اگر جائزہ لیا جائے، تو دولت بہ ذاتِ خود بری چیز نہیں ہے۔ یہ تو خود مالدار شخص کے ظرف کی بات ہوتی ہے کہ وہ مال و دولت کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے اور لوگ اُسے کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ کچھ لوگ غریب شخص کو صرف غریب نہیں بلکہ اُسے غریب ہونے کے ساتھ ساتھ ذلیل ہوتا ہوا بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ اکثر غریب لوگوں کی غربت کے باوجود معاشرے میں عزت ہوتی ہے، تو حاسد یہ چاہتا کہ غریب کی عزت کیوں ہورہی ہے، اسے تو کڑی سے کڑی سزا دینا چاہیے۔ ایک تو یہ غریب ہے، دوسرا سر اُٹھا کر بھی جی رہا ہے، اسے تو ذلالت کے اندھیروں میں ٹھوکریں کھانی چاہئیں۔ غریب کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ اس زمین پر ہمارے برابر میں رہتا ہے، نہیں نہیں اسے کوئی حق نہیں۔ ارے، یہ تو علم و دانش کی باتیں بھی کرتا ہے، اسے میری ہمسری کی جرأت کیسے ہوگئی! 
ان تلخ باتوں کے لکھنے کا مقصد اور وجہ یہ ہے کہ ہمیں ایک قریبی دوست نے کچھ حالات بتائے ہمارا وہ دوست بھی اپنے آپ کو غریب نہیں سمجھتا۔ وہ فضول خرچ بھی نہیں ہے۔ اُس کی زندگی اور اُس کی عادتیں بہت متوازن ہیں۔ وہ چند اصولوں کے تحت زندگی گزارنے کا قائل ہے۔ وہ کسی کو بھی دکھ دینے کے حق میں نہیں ہے۔ وہ انسان سے زیادہ اپنے خالق و مالک سے توقعات رکھتا ہے۔ ہمارے دوست کا تعلق ایک غریب گھرانے سے ضرور ہے، مگر اُن کا تمام خاندان غیور اور خود دار بھی ہے، اُس کی زبانی اُس کی باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ اُس کا کہنا ہے کہ ’’میں اکثر اپنے رشتہ داروں کے گھر دوسرے شہر جاتا تھا۔ ملاقات ہوجاتی تھی ہمارے اور اُن کے مراسم بھی بہت اچھے رہے۔ اب بھی کبھی کبھار آنا جانا ہو ہی جاتا ہے۔ ہوا یوں کہ میں ایک مرتبہ شادی کی تقریب کے سلسلے میں اُن رشتہ داروں کے یہاں چلا گیا تھا۔ کیوں کہ وہ شادی دراصل ہم سے زیادہ متعلق تھی۔ چناں چہ کھانے کا تمام انتظام بھی ہمارے ذمہ تھا۔ اُس شہر میں ہمارا اپنا ٹھکانا بھی تھا۔ لہٰذا شادی کی اس تقریب میں، مَیں نے اپنے دو دوستوں کو بھی مدعو کیا۔ اُن کے پاس ذاتی گاڑی تھی۔ طے یہ ہواکہ چلو اپنی گاڑی میں ہی چلے چلتے ہیں۔ سہولت رہے گی۔ وہ ایک پجارو گاڑی تھی۔ یہ محض اتفاق تھا۔ ورنہ قصداً میں ایسا نہیں چاہتا تھا۔ خیر، ہم وہاں پہنچ گئے، جب وہاں بزرگ رشتہ دار نے میرے ساتھ دو افراد کو دیکھا، تو اُس کا ماتھا ٹھنکا۔ اُس نے بڑی بے مروتی سے اُن سے پوچھا: ’’تم لوگوں نے آنے کی تکلیف کیوں کی؟‘‘ 
جب بزرگ کو یہ پتہ چلا کہ گھر کے دروازے پہ جو گاڑی کھڑی ہے، یہ لوگ اسی میں تشریف لائے ہیں، تو اُس کا تن بدن مزید شعلوں کی زد میں آگیا۔ میری غیر موجودگی میں اس شخص نے کچھ ایسی باتیں کیں کہ وہ مہمان مجھ سے بار بار واپسی کی اجازت مانگ رہے تھے۔ میں نے بڑی مشکل سے انھیں سہ پہر کا کھانا کھانے پہ راضی کیا۔ کھانا کھانے کے دوران میں بزرگ نے انھیں ہوٹل کی پیش کش کردی کہ جی میرے جاننے والوں کے ہوٹل ٹھنڈے علاقوں میں ہیں۔ تم دونوں وہاں چلے جاؤ۔ میں نے جب یہ بات سنی، تو برجستہ کہا، جی نہیں! ہوٹل سے بہتر ہے کہ یہ اپنے گھر چلے جائیں۔ اور میں نے انھیں تقریب سے پہلے ہی رخصت کردیا۔‘‘
میرے دوست نے مزید کہا کہ وہ ’’بڑا‘‘ مجھ سے کہنے لگا کہ تم اس گاڑی میں اس لیے آئے تھے کہ مجھ پہ رعب جما سکو۔ حیثیت کے مطابق چلا کرو۔ میں اس کی اس قدر گھٹیا ذہنیت پہ ہکا بکا رہ گیا۔ کیوں کہ اس سے قبل تو میں ہمیشہ تیس سے پچاس لاکھ کی گاڑی میں ٹکٹ لے کر آیا کرتا تھا۔ اُس مرتبہ تو صرف دس لاکھ کی گاڑی میں آیا تھا، مگر فرق یہ تھا کہ یہ گاڑی میں نے اس کے دروازے پر لاکر کھڑی کی تھی۔ کیوں کہ یہ شخص مجھے غریب سمجھتا ہے اور غریب کو اتنا محترم نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے تو ذلیل خور رہنا چاہیے۔ ’’بڑے‘‘ نے مزید کہا کہ ایسی گاڑیاں تو ہمارے یہاں ’’خرکاروں‘‘ کے پاس ہوا کرتی ہیں اور تم ہمیں اپنے رعب دکھا رہے۔ لیجیے جناب! اب آپ کیا کہیں گے اور جس بڑے کا ذکر ہمارا دوست کررہا ہے وہ ایک پڑھا لکھا اور باشعور شخص ہے مگر اس کی فطرت؟ یاد رکھیے کچھ لوگوں کی فطرت اتنی گنجلک ہوتی ہے کہ کسی قسم کا علم اُس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ حاصل شدہ علم کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا کردار میں کوئی تبدیلی ہی رونما نہیں سکتی۔ 
سوچتے ہیں ہمیں کیا ہوتا جارہا ہے۔ ہم کیوں اپنی سوچ کو منفی احساسات کے حوالے کیے جارہے ہیں؟ کیوں مثبت سوچنے والوں کو دائرۂ انسانیت سے خارج کرنے کے درپے ہیں؟ ہم کیوں انتشار پسند اور شدت پسند ہوتے جارہے ہیں؟ چھوٹے چھوٹے معاملات میں ہم کیوں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ کر ایک دوسرے کو بے مول کرنے کی کوشش میں مصروف کار رہتے ہیں؟ اچھے لوگوں کی کمی تو نہیں ہے پھر کیوں ہم مایوسی کا شکار ہوئے جارہے ہیں؟ کسی کو بلا وجہ کیوں موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے؟ خود ساختہ بدگمانی کیوں کی جا رہی ہے؟ بہ ہر حال اُمید پہ تو زندگیاں گزر جاتی ہیں، نیک خواہشات اور مثبت سوچ بہت اچھے خصائل ہیں۔ ان کو ضروری کام میں لانا چاہیے کہ ہر انسان بہت قیمتی ہے۔ اسی سے تو رونق کائنات وابستہ ہے۔ خیر خواہی ایک لازوال و بے مثال جذبہ ہے، اسے زندہ رہنا چاہیے۔ 
نجی اداروں کے اساتذہ کا شمار بھی مزدور طبقہ میں ہوتا ہے۔ ان کو بھی حکومت کی طرف سے طے شدہ کم سے کم اُجرت کے مطابق تن خواہ دی جانی چاہیے اور تعلیمی قابلیت کے مطابق اس میں اضافہ بھی ضروری ہے۔ ادارہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، اس استاد کے پیریڈز چھوٹی کلاسوں میں ہوں یا بڑی میں، مگر اُس کی تعلیمی قابلیت کو ہر گز نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ نجی اداروں کو بھی کچھ نرم قوانین کا پابند ضرور کرنا چاہیے۔ کیوں کہ بعض اُمور میں یہ ادارے قوانین سے بالاتر ہوجاتے ہیں۔ آخر نجی اداروں کے اساتذہ کامستقبل کیا ہے؟ یہ ادارے اپنی مرضی سے بھرتی بھی کرلیتے ہیں اور کسی جواز یا بغیر جواز کے ادارے سے رخصت بھی کردیتے ہیں۔ اُن اداروں سے معذرت جو اساتذہ کی مزدوری اور ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں کہ اچھے لوگ ابھی دنیا میں موجود ہیں۔ انصاف ضروری ہے۔ اگر بجٹ میں مزدور کی تن خواہ کم سے کم بارہ ہزار روپے ماہانہ ہے، تو پھر ایک استاد کو بھی کم سے کم تن خواہ بارہ ہزارملنی چاہیے اورمزید تعلیمی قابلیت کے مطابق زیادہ سے زیادہ تن خواہ جتنی بھی زیادہ ہو کم ہے۔ مگر بارہ ہزارسے کسی بھی طور کم نہیں ہونی چاہیے۔ کیوں کہ استاد بھی مزدور ہے۔ کچھ ادارے تو پندرہ ہزار روپے ماہانہ بھی دے رہے ہیں اور یہ کوئی بری بات بھی نہیں ہے۔ وہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ ادارے بھی بڑے ہیں، مگر چھوٹے اداروں کو بھی انصاف کا دامن پکڑ لینا چاہیے۔

0 comments:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔