Click & Install Urdu Phonetic Keyboard

Pak Urdu Installer
Monday, 15 September 2014

23:02

تین بہنوں کا ایک بھائی جو اپنے والد صاحب کا شہزادہ تھا، بہت لاڈلا تھا۔ وہ جس چیز کی خواہش کرتا، تواس کے والد صاحب وہ اس کے لیے پورا کرتے۔ جس چیز پر ہاتھ رکھ دیتا، وہ اُس کی ہوجاتی۔ سب اسے بہت پیار کرتے تھے۔ 
ایک دن شہزادہ اپنے دوستوں کے ساتھ گھومنے گیا۔ موٹر سائیکل پر گھومنے کے بعد جیسے ہی گھر پہنچا، تو اگلے دن اس نے اپنے والد صاحب سے کہا کہ مجھے موٹر سائیکل لینی ہے۔ اس کے والد صاحب نے منع کیا، تو شہزادہ منھ لٹکائے بیٹھ گیا۔ احتجاجاًاس نے بات کرنا اور کھانا پینا چھوڑ دیا۔ رشتہ داروں نے بہت منع کیا، لیکن اُس کے والد صاحب مجبور تھے، وہ بس اپنے بیٹے کو خوش دیکھنا چاہتے تھے۔ اور اس نے ضد پکڑی ہوئی تھی کہ مجھے موٹر سائیکل ہی لینی ہے۔ وہ مختلف تاویلیں پیش کرتا تھا کہ میں اوور اسپیڈنگ نہیں کروں گا۔ میں بہت احتیاط کے ساتھ چلاؤں گا۔ 

مجبور ہوکر آخر کار شہزادے کے والد صاحب نے اس کے لیے موٹر سائیکل خرید ہی لی۔ اب شہزادہ خوش تھا اور اُس کے گھر والے ناخوش۔ وہ ڈر رہے تھے کہ اللہ نہ کرے کہ کوئی ایسا واقعہ ہوجائے جس سے ہمیں بہت بڑا نقصان ہو۔ شہزادے نے اپنے سب دوستوں کو گھر کھانے کے لیے دعوت دی۔ اور اپنی خوشی کا بھرپور اظہار کیا۔

ایک دن ایسا ہوا کہ شہزادہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے گیا۔ کھیلنے کے بعد سب دوست اکٹھے ہوگئے۔ ان میں سے ایک دوست نے کہا کہ کہیں جانے کا پروگرام بناتے ہیں۔ باقی دوستوں نے مشورہ کرکے منصوبہ بنایا کہ اتوار کے دن ہم گھومنے جائیں گے۔ شہزادے نے گھر میں اپنے والد صاحب سے اجازت مانگی۔ اُس کے والد صاحب نے تو پہلے منع کیا، لیکن بعد میں کچھ شرائط کے بعد اُسے چھوڑ دیا۔ 
شرائط یہ تھیں کہ تم بات بات پر ضد نہیں پکڑوگے۔ اپنی پڑھائی پر توجہ دوگے۔ اوور اسپیڈنگ نہیں کروگے وغیرہ وغیرہ۔ شہزادے نے تمام شرائط مان لیں۔اگلے دن سب دوست تیار ہوگئے۔ سبھی نے اپنی اپنی موٹر سائیکل گھر سے نکالی اور روانہ ہوگئے۔ شہزادہ بھی ان میں سے ایک تھا۔ ابھی اک آدھ کلومیٹر ہی چلے ہوں گے کہ ایک دوست نے کہا: ’’چلوریس لگاتے ہیں۔‘‘ سب بچے مستی میں تھے۔ شہزادے نے بھی وعدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اوور اسپیڈنگ شروع کی۔ اس دوران میں تیز رفتاری کے باعث شہزادہ اپنی موٹر سائیکل کنٹرول نہیں کرسکا اور ایک ٹرک کے ساتھ ٹکرا گیا۔اسے شدید چوٹیں آئیں۔ وہ سڑک پر ماہئی بے آب کی طرح تڑپ رہا تھا۔ اس کے باقی دوست اس کی طرف لپکے مگر لمحوں کے حساب سے وہ زخموں کی تاب نہ لاکر جان کی بازی ہار گیا۔
مقامی لوگوں نے اس کی لاش کو ایمبولینس میں ڈال کر گھر پہنچادیا۔ چشم زدن میں گھر ماتم کدہ بن گیا۔ اس کی ماں دیوانہ وار اس کے بے جان جسم سے لپٹتی جاتی مگر شہزادے کو نہ اٹھنا تھا، نہ اٹھا۔ اس کے والد صاحب کی آنکھوں میں دو موٹے موٹے آنسو تیر رہے تھے۔ مگر اس مصرعہ کے مصداق کیا ہوسکتا تھا کہ
تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔