سب سے پہلے ندیم چراغؔ کے پہلے شعری مجموعہ سے سہل ممتنع کا ایک بہترین نمونہ غزل کی صورت میں ملاحظہ کیجیے:
ستا اننگی او سرہ گلونہ بالکل یو شان دی
دَ خدائے پاک دغہ تخلیقونہ بالکل یو شان دی
دغہ بورا دے، دغہ گل دے او دا زہ او دا تہ
دَ محبت دا منظرونہ بالکل یو شان دی
زہ پہ ھغے یمہ مئین، ھغہ پہ ما مئینہ
زمونگ دَ مینے نہ ڈک زڑونہ بالکل یو شان دی
تہ مے ارمان ئے پہ خوبونو کے دے ھم وینمہ
زما ارمان، زما خوبونہ بالکل یو شان دی
ندیمہؔ یارہ تہ شاعر ئے، زہ شاعرہ نہ یم
گنی زما او ستا خیالونہ بالکل یو شان دی
درویش منش سکندر حیات کسکرؔ کو جب ہمارے سوات کے دیگر شعراء اس کی رومانوی شاعری کے حوالے سے چھیڑتے ہیں، تو وہ کمال انکساری سے لبوں پر مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے گویا ہوتے ہیں کہ ’’بھئی، میں نوجوان نسل کا شاعر ہوں۔ نوجوانوں کے لطیف جذبات اور ان کے احساسات کو شعر کا جامہ پہناتا ہوں۔‘‘ ان کا تلملاتا چہرہ اس وقت قابل دید ہوتا ہے، جب وہ سوات کے ٹی ہاؤس (شعیب سنز) میں استاد محترم فضل ربی راہیؔ کی چوٹوں کا سامنا کرتے ہیں۔ وہ بدلے میں جو ’’گل پاشی‘‘ کرتے ہیں، اسے احاطۂ تحریر میں لانا کم از کم میرے بس کی بات نہیں ہے۔
آج ندیم چراغؔ کے پہلے شعری مجموعہ کو پڑھنے کے بعد میں یہ دعویٰ کرنے میں حق بہ جانب ہوں کہ کسکرؔ کے ساتھ ساتھ چراغؔ بھی نوجوان نسل کا شاعر ہے۔ چراغؔ کی عمر بہ مشکل تیس بتیس سال ہی ہوگی، اس لیے اس کی شاعری پر رومانوی رنگ غالب ہے۔ ایک نوجوان کے جو احساسات ہوتے ہیں، وہی چراغؔ کے بھی ہیں۔ ’’دَ گل پہ غیگ کے‘‘ کے محاسن و معائب پر گفت گو سے پہلے پشتو کا ایک شعرچراغؔ کے دفاع میں نذرِ قارئین ہے،
دَ تنقید نظر پے مہ کڑئ اے ملگرو
زما فن خو ھم زما غوندے ماشوم دے
مگر ایک بات میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مختلف صنعتوں پر چراغؔ کی طبع آزمائی مستقبل قریب میں اس کے ایک بڑے شاعر کے روپ میں ابھرنے کی واضح دلیل ہے۔ مشت نمونہ از خروارے کے مصداق ان کے شعری مجموعہ سے سب سے پہلے صنعت تشبیہ کی چند مثالیں ملاحظہ کیجیے
دَ شنے لوپٹے تار دی دَ مڑوند نہ چاپیر شوے
ڈیر خوند کوی دَ لرے نہ بنگڑے غوندے خکاریگی
ستا دَ خلے لاڑے او دا ستا نرمے نازکے شونڈے
لکہ چغجئ چے دَ بادامو خورم دَ شاتو سرہ
لکہ دَ نمر پہ شانتے ستڑے ستڑے جوند تیرووم
خو پریواتہ دی او خاتہ دی بس زہ دا پائمہ
کتاب کو ٹٹولتے ہوئے صنعت جمع کی بھی ایک زبردست مثال میرے ہاتھ لگی، ملاحظہ ہو
لوپٹہ، گگرہ، پگڑء، او سادرونہ
دَ سپیزلی قام سہ خکلی روایات دی
صنعت تلمیح در اصل دریا کو کوزے میں بند کرنا ہے اور چراغؔ مذکورہ صنعت کو کمال مہارت سے استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں،
ستا دے فن پارو تہ مے سجدے دَ محبت اوکڑے
دا خو مے جانانہ تگ پہ لار دَ ازر کڑے دے
بعض باتیں ببانگ دہل کہی جاتی ہیں اور بعض ’’لورے تاتہ ئے ویمہ او انگورے تہ ئے واورہ‘‘ کے مصداق رمز و کنایہ کا سہارا لے کر کہی جاتی ہیں۔ چراغؔ کے دو اشعار کچھ اسی رنگ میں رنگے حاضرِ خدمت ہیں،
زہ دَ حفصے دَ سرو گلونو پہ غم نہ جاڑمہ
خو دَ ٹول قوم جنازہ گورہ یو سڑی اوویستہ
ما خو دَ بوٹ او دَ پٹکی دَ لاسہ جوند بائیللے
خپے مے شوے ماتے دَ ناکامہ پہ لاسونو گرزم
ایسا ہر گز نہیں کہ چراغؔ صرف حسن و شباب کا شیدائی ہے۔ اس کی شاعری میں آفاقیت کا عنصر بھی شامل ہے۔ میرے اس دعوے کے ثبوت میں چراغؔ کی ایک چھوٹے بحر والی غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں،
پہ ژڑا کلہ ویخیگی
دَ قسمت ناوے اودہ دہ
بے وسی دہ نو دا زکہ
دَ شرابو مے توبہ دہ
دا وطن بہ خاورے خہ شی
دا پہ دے غریب یوہ دہ
دَ مذہب پہ نوم قتلیگی
دا لا بلہ تماشہ دہ
چند اور اشعار جن کی بازگشت ایک عرصے تک سنائی دے گی
بام عروج تہ دنیا اورسیدہ
مونگہ لا ھغسے پہ خوب اودہ یو
تل دَ نفرت پہ جہنم کے سوزو
مونگہ دَ جوند پہ معنی پوھہ نہ یو
اخترہ راشہ خو بربنڈ بچی دَ لوگے نہ مری
دَ زان سرہ یو ٹوک ڈوڈئ راوڑہ، جامے راوڑہ
زہ د کاٹلنگ ندیم سادہ بادہ سڑے یم مڑے
ڈیر تکلیف مہ کوہ ساگ راوڑہ شوملے راوڑہ
راہنما دے زما پیر دے
عدالت مے خپل ضمیر دے
یو ماشوم بستہ واخلی سحر وختی اسکول تہ زی
بل چے پہ ڈیران اووینم زہ اللہ تہ اوجاڑم
وختونو داسے پہ سر واخستمہ
لکہ چے زگ زی دَ اوبو دَ پاسہ
چراغؔ کی شاعری میں پختون معاشرے کی اقدار اور اس کا حسن جا بہ جا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی غزل کے دوا شعار تو بالکل اسی پختون معاشرے کے عکاس ہیں۔ دونوں پختانہ اشعار حاضر خدمت ہیں،
شونڈہ دے شنہ شوہ درلہ غم کووم
ماتہ اکثر دا خبرہ مور کوی
ھیث راسرہ نشتہ خو تا غواڑمہ
داسے غم لہ خلق قرض پور کوی
ایک اور پختون شعر ملاحظہ ہو
گٹہ مے واڑولہ ستا نہ چے خبر شومہ
پل دے بختور شہ سنگہ لار درنہ غلطہ شوہ
حرف آخر کے طور پر میں یہی کہوں گا کہ ’’دَ گل پہ غیگ کے‘‘ ایک ایسی کتاب ہے جسے ہر لائبریری کی زینت ہونا چاہیے۔ ایک سو اٹھائیس صفحات کی مجلد یہ کتاب شعیب سنز پبلشرز اینڈ بک سیلرز سوات نے شائع کی ہے۔ اس کا رنگین ٹائٹل مراد آرٹسٹ کی تخلیق ہے۔ مناسب قیمت کے ساتھ یہ ہر اچھے بک اسٹال سے باآسانی دست یاب ہے۔
0 comments:
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔