Click & Install Urdu Phonetic Keyboard

Pak Urdu Installer
Thursday, 10 July 2014

22:28
تحریر : شہزاد عالم(سوات)۔

سوات کی تحصیل کبل کے بالائی علاقے میں دو ماہ قبل اس وقت ایک تیرہ سالہ لڑکی پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، جب اس کے سنگ دل شوہر نے اس کے ڈیڑھ سالہ بیٹے کو اپنے بہن کے گھر بھیج کر اس کی ناک کاٹ دی۔ وہ بے چاری چیختی چلاتی رہی مگر ظالم شوہر کو کچھ ترس نہ آیا اور اس نے نہایت ہی دیدہ دلیری سے اپنا کام تمام کر دیا۔

شوہر کے ہاتھوں ظلم کا نشانہ بنے والی سترہ سالہ شاہدہ نے اپنا دکھڑا کچھ یوں سنایا کہ میرے والدین نے سات سال کی عمر میں میری وٹہ سٹہ کی شادی کی۔ روز اول سے مجھے میرا شوہر اورساس تشدد کا نشانہ بناتی رہی۔ میرے سسرال والے مجھے دھمکیاں دیتے تھے کہ اگر کسی کو اس حوالہ سے کچھ بتایا تو تمھاری ناک، کان اور جسم کے دیگر اعضاء کاٹ کر کتوں کو کھلائے جائیں گے۔ بس اسی ڈر کی وجہ سے میں دس سال تک یہ ظلم سہتی رہی۔ اگر مجھے پتہ ہوتا کہ آخر میرا مقدر یہی ہے، تو میں یہ دس سالہ ظلم نہیں سہتی۔

شاہدہ نے مزید کہا کہ جس روز میری ناک کاٹی جارہی تھی، میری سا س میری نند کے گھر گئی تھی اور میرے ڈیڑھ سالہ بیٹے کو بھی اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ کیوں کہ دو دفعہ اس سے قبل بھی میری ناک کاٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس دوران میں میرا بیٹا میری چیخیں سن کر رونے لگتا، تو میرا ظالم شوہر مجھے چھوڑ دیتا۔ اس روز میری ساس نے یہ عمل پورا کرنے کے لیے ماحول سازگار کیا اور خود چلتی بنی۔ناک کاٹتے سمے میں نے اپنے شوہر سے نشہ آور دوا طلب کی، تو اس ظالم نے مجھے نشہ کی ایک گولی دی، جسے کھانے کے باوجود میری تکلیف کی کوئی انتہاء نہ تھی۔ میں نے تھوڑی بہت مزاحمت کی، تو اس ظالم نے میرے ہاتھ پاؤں کس کر باند ھ لیے اور بڑی بے دردی سے تیز چھری کی مدد سے میری ناک کاٹنے کا عمل شروع کیا۔ اب یاد آتا ہے تو میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ 

شاہدہ نے میری طرف آنسوؤں سے بھری آنکھیں اٹھاتے ہوئے کہا کہ لڑکیوں کا قصور کیا ہے؟ غلطی والدین کریں اور سزا ان کی بچیوں کو دی جائے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ اگر ایسا ہونا ہی ہے تو پھر مائیں بچیوں کو جنتی ہی کیوں ہیں؟ انھیں پیدا ہوتے سمے زندہ درگور کیوں نہیں کرتیں؟ 

شاہدہ نے مزید کہا کہ میرا شوہر مجھے کئی کئی ہفتے ایک تنگ و تاریک کمرے میں چھت سے باندھ کے رکھتا تھا۔میں اُف تک کرتی تو دھمکیاں دیتا تھا کہ چپ ہوجا ورنہ میں تیری ناک کاٹ دوں گا۔ بندہ ایک دفعہ مرتا ہے لیکن میں تو اپنے شوہر کے مظالم سے روز مرتی تھی۔
اس موقع پر متاثرہ لڑکی شاہدہ کے والد ظاہر شاہ نے کہا کہ مخالف فریق کی جانب سے دھمکیاں مل رہی ہیں اور ہمیں صلح کرانے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میرے ساتھ میرے داماد نے جو ظلم کیا ہے، میں اس کو کبھی معاف نہیں کروں گا۔ کیوں کہ میرے سترہ سالہ پھول جیسی بچی کی ناک کاٹ کر انھوں نے درندگی کا ثبوت دیا ہے۔ اب ان لوگوں کی جانب سے ہمیں صلح کے لیے دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ اس لیے حکومت ہمیں انصاف اور تحفظ فراہم کرے۔ انھوں نے کہا کہ میری بیٹی کے علاج کے لیے میں نے ایک لاکھ روپے سود پر ادھار لیے ہیں جو ختم ہوگئے ہیں۔ اب میرے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں کہ میں اپنی بیٹی کا علاج جاری رکھ سکوں۔ اس نے حکومت سے مالی امداد کا مطالبہ کیا۔
نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ انسانی حقوق کے عمل برادراور خواتین کے حقوق پر بیرونی ممالک سے کروڑوں کا فنڈ حاصل کرنے والے اس چھوٹی ’’ملالئی‘‘ کے ساتھ ہونے والے ظلم پر کیوں خاموش ہیں ؟ کیا یہ ملالئی کسی کی بیٹی نہیں؟رمضان المبارک کے اس بابرکت مہینے میں جب اس کے گھر سحری اور افطاری کو کچھ نہیں ہے، تو وہ اپنے علاج کے لیے پیسے کہاں سے لائے اور یوں ایک پھول سی بچی کی زندگی تباہ و برباد ہوگئی۔
درندہ صفت شوہر (پولیس اہل کار) کے مظالم کا شکارسترہ سالہ شاہدہ طبی اورقانونی امدادکے لیے ’’خوئندوجرگہ‘‘ کے آفس پہنچ گئی۔ جہاں پتہ چلا کہ اس کی شادی محض سات سال کی عمر میں کرائی گئی تھی۔ چوں کہ شاہدہ کا شوہر اس سے قبل اپنے والد کو قتل کرچکا ہے۔ اس لیے شاہدہ اس کی دھمکیوں سے ڈرتی تھی اوراپنے اوپر ہونے والے مظالم کے بارے میں کسی کونہیں بتاتی تھی۔ شاہدہ کے مطابق کچھ عرصہ پیش تر ظالم شوہر نے اس کے ہاتھ کی ہڈی بھی توڑی تھی۔ جب شاہدہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو اس نے اپنے والدین کو اس حوالے سے آگاہ کرنا چاہا، جس پر اس کے شوہر نے موقع پا کر اس کی ناک کاٹ دی۔شاہدہ نے کہا کہ ناک کاٹنے کے بعد وہ سفاک کہنے لگا کہ اب تمھارے کان اور ہونٹ بھی کاٹوں گا۔ یوں شاہدہ موقع پا کر وہاں سے بھاگ نکلی اور سیدھا تھانے رپورٹ درج کرنے چلی گئی۔
شاہدہ تب سے لے کر آج تک اپنے علاج کے لیے در در کی خاک چھاننے پر مجبور ہے۔ اب تک کسی حکومتی یا غیر حکومتی ادارے نے اس ضمن میں اس کی کوئی مدد نہیں کی ہے۔ شاہدہ کا شوہر تو گرفتار ہوکر جیل جا چکا ہے مگر اب وہ جیل اور اس کے گھر والے گاؤں سے شاہدہ کو سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔اور شاہدہ کے والدین پر صلح کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ انھوں نے حکومت اوردیگراعلیٰ حکام سے انصاف کی فراہمی اورعلاج معالجہ کے سلسلے میں تعاؤن کرنے کی اپیل کی ہے۔
قارئین کرام! بچی کے خوئندو جرگہ آفس آنے کے بعد چیئرپرسن تبسم عدنان کی سربراہی میں ایک جرگہ ہوا جس میں واقعے کی پرزور الفاظ میں مذمت کی گئی اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مذکورہ بچی کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے مرتکب افراد کو کڑی سے کڑی سزا دیں اور ان کی مالی امداد بھی کی جائے۔
اس حوالے سے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سوات شیر اکبر خان نے کہا ہے کہ متاثرہ لڑکی کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا جارہا ہے،اس کو ہر حال میں انصاف فراہم کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ گزشتہ روز خبر پڑھنے کے بعد اسی وقت مقامی پولیس کو مذکورہ خاندان کو ہر قسم کے تحفظ فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی اور ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ مذکورہ ظالم شوہر کو فوری طور پر پولیس نے گرفتار کیا ہے اور اس سے آلۂ جرم بھی برآمد کیا گیا ہے۔ اب تفتیش جاری ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس اپنی ڈیوٹی اور تفتیش صحیح طریقے سے کر رہی ہے اور اگر پھر بھی اس بچی یا اس کے والدین کو کسی سے شکایت ہو، تو براہ راست مجھ سے رابطہ کریں۔ کیوں کہ پولیس کو مذکورہ خاندان کے تحفظ اور مدد کی سختی سے ہدایت کی گئی ہے۔
قارئین کرام! اپنا صحافتی حق ادا کرنے کے بعد میں یوں ہی سوچوں میں گم ہوا۔ پروین شاکر کی ایک پرانی نظم یاد آئی ۔ میری آنکھوں میں آنسو آئے۔ پروین شاکر چاہے کتنی بڑی شاعرہ کیوں نہ ہو، تھی تو وہ ایک عورت ہی نا۔ آپ بھی نظم پڑھ لیں۔ اس میں آپ کو معصوم شاہدہ کی معصوم صورت اور اس کی لاچارگی دکھائی دے گی۔ نظم ملاحظہ کیجیے:
تم مجھے گڑیا کہتے ہو
ٹھیک ہی کہتے ہو
کھیلنے والے سب ہاتھوں کو 
میں گڑیا ہی لگتی ہوں
جو پہنا دو، مجھ پہ سجے گا
میرا کوئی رنگ نہیں
جس بّچے کے ہاتھ تھما دو
میری کسی سے جنگ نہیں
سوچتی جاگتی آنکھیں میری
جب چاہے بینائی لے لو
کوک بھرو اور باتیں سن لو
یاں میری گویائی لے لو
مانگ بھرو، سیندور لگاؤ
پیار کرو، آنکھوں میں بساؤ
اور جب دل بھر جائے تو
دل سے اُٹھا کہ طاق پہ رکھ دو
تم مجھ کو گڑیا کہتے ہو
ٹھیک ہی کہتے ہو

Newer Post
اگلی تحریر
یہ سب سے پرانی تحریر ہے۔

0 comments:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔